جذبات قابو میں نہ تھے

جذبات قابو میں نہ تھے

میرانام نجمہ ہے اورمیں حیدرآباد کے ایک اپر مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھتی ہوں میری عمر اس وقت 36 سال ہے میری شادی جوانی کے پہلے سالوں میں ہی ہوگئی تھی اور میں اس وقت تین بچوں کی ماں ہوںمیرے بڑے بیٹے کی عمر 14 سال ہے لیکن میرا جسم بہت ہی پرکشش اور خوب صورت ہے کوئی بھی مجھے پہلی نظر میں دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ میں تین بچوں کی ماں ہوں میں نے اپنے جسم کو بہت ہی فٹ رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے میرا جسم سمارٹ ہے میرا قد 5 فٹ 6 انچ ہے کمر 34 اور مموں کاسائز 36 ہے میری آنکھیں کالی اور بال گھنے اور سیاہ ہیں میں حیدر آباد شہر میں اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ رہتی ہوں میرے خیال میں میرے میاں انور میرے ساتھ اتنی محبت کرتے ہیں کہ شائد ہی کوئی خاوند اپنی بیوی کے ساتھ کرتا ہوگا ہماری ازواجی زندگی بہت اچھی گزر رہی ہے ہم لوگ ہفتہ میں اوسطاً ایک بار سیکس ضرور کرلیتے ہیں جو کہ کسی بھی شادی شدہ جوڑے جن کی شادی کو اتنا عرصہ گزر گیا ہو کے لئے کافی ہے لیکن میرے خیال میں یہ میرے لئے کم ہے جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے میری جنسی بھوک میں اضافہ ہوتا جارہا ہے تاہم میں نے کبھی بھی ایسا نہیں سوچا کہ کسی غیر مرد کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کروں گی میرے خاوند انور کا ایک بچپن کا دوست ندیم ہمارے گھر کے قریب ہی اپنی بیوی سلمی اور بچوں کے ساتھ رہتا ہے اس فیملی کا ہمارے گھر میں روٹین کے ساتھ آنا جانا ہے جس پر انور‘ ندیم‘ میں یا ندیم کی بیوی نے کبھی بھی اعتراض نہیں کیا ندیم ایک پرکشش شخصیت کا مالک ہے اور اس کی عادات بھی بہت اچھی ہیں لیکن میں نے اس کے ساتھ کوئی قابل اعتراض تعلق قائم کرنے کے حوالے سے کبھی بھی سوچا تک نہیں تھا ہم جب بھی ملے بہن بھائیوں کی طرح ملے ہم لوگ ایک خاندان کی طرح ہیں اور اس بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں کہ ہمارے درمیان کوئی خونی رشتہ نہیں ہے یہ کوئی تین ماہ پہلے اتوار کے دن کی بات ہے جب میرے انور شہر سے باہر گئے ہوئے تھے اور بچے میرے امی ابو جو کہ حیدرآباد میں ہی رہتے ہیں کے گھر گئے ہوئے تھے صبح سویرے گھر کے کام کاج نمٹا کر میں گھر میں بیٹھی بور ہورہی تھی میں نے سوچا کہ ندیم کی بیوی سلمی کے پاس چلتی ہوں تھوڑا وقت گزر جائے گا میں ان کے گھر گئی دروازے پر بیل دی جس پر ندیم نے دروازہ کھولا بھابھی آپ۔۔۔۔۔۔ آئیے اندر آئیے ‘ ندیم نے مجھے کہا میں اندر چلی گئی اور ڈرائنگ روم میں چلیگئی سلمی کدھر ہے‘ میں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا آپ بیٹھئے ‘ ندیم نے مجھے کہاجس پر میں صوفے پر بیٹھ گئی اور پھر اس سے سلمی کے بارے میں پوچھا جس پر اس نے بتایا کہ اس کی امی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی ایک گھنٹہ پہلے اس کے میکے سے فون آیا جس پر وہ ابھی ابھی بچوں کے ساتھ اپنے چلی گئی ہے جلدی کی وجہ سے وہ آپ کو بھی بتا کر نہیں گئی(سلمی کا میکہ اسی علاقے میں تھوڑی دور تھا) اچھا میں چلتی ہوں‘ میں نے واپس جانے کے لئے مڑتے ہوئے کہا بیٹھئے نہ میں آپ کے لئے چائے لاتا ہوں‘ اس نے مجھے کہا کیا آپ میرے لئے چائے بنا? گے‘ اس کی بات سن کر میری ہنسی نکل گئی اگر آپ میرے ہاتھ کی چائے نہیں پینا چاہتی تو آپ چائے بنا لیں مجھے بھی چائے کی طلب ہورہی ہے میں بھی پی لوں گا‘ اس نے کہا یہ گھر میرے لئے اجنبی نہیں تھا لیکن آج میں اس گھر میں اکیلے کسی خاتون کی غیر موجودگی میں عجیب سا محسوس کررہی تھی میں نے پہلی بار اس گھر میں چائے نہیں بنائی تھی پہلے بھی کئی بار ایسے ہوا تھا لیکن آج جانے کیوں میری چھٹی حس مجھے کسی انہونی کے بارے میں آگاہ کررہی تھی میں نے ندیم سے جانے کے لئے اجازت لینے کا سوچا



 لیکن جانے کیوں میں ایسا نہ کرسکی اور کچن میں جاکر اپنے اور ندیم کے لئے چائے تیار کی اور ڈرائنگ روم میں لے آئی اور صوفے پر بیٹھ کر چائے پینے لگی اور ساتھ میں ہم لوگ باتیں کرنے لگے اس دوران میں نے محسوس کیا کہ آج وہ میری طرف عجیب سی نظروں سے دیکھ رہا ہے اچانک ہی اس نے میرے کپڑوں کے بارے میں باتیں شروع کردیں اور کہنے لگا کہ آج آپ نے بہت اچھے کپڑے پہنے ہوئے ہیں ان میں آپ بہت ہی خوب صورت لگ رہی ہیں جس پر میں نے تھوڑا سا عجیب سا محسوس کیا تاہم میں نے تعریف کرنے پر اس کا شکریہ ادا کیا اس نے پھر کہا کہ انور کتنا خوش نصیب ہے جس کو تمہارے جیسی خوب صورت‘ پرکشش اور سیکسی بیوی ملی ہے اس کی باتیںسن کر میں نے تھوڑی سی شرمندگی محسوس کی ندیم بھائی آپ آج کیسی باتیں کررہے ہیں آپ نے پہلے کبھی بھی ایسی باتیں نہیں کیں‘ میں نے ندیم کو ٹوکتے ہوئے کہا آپ کا کیا مطلب ہے کہ مجھے پہلے بھی ایسی ہی باتیں کرنی چاہئے تھیں‘ اس نے حاضر جوابی سے کام لیتے ہوئے کہاجس پر میں تھوڑا سا شرمندہ ہوئی اور اس کو کہا نہیں ندیم بھائی میرا یہ مطلب نہیں تھا آپ میرے بھائیوں کی طرح ہیں اور آپ کی بیوی بھی بہت خوب صورت ہے مگروہ آپ کی طرح کی نہیں ہے‘اس نے جواب دیا اور پھر وہ اپنی ازواجی زندگی کے بارے میں باتیں کرنے لگا اس نے کہا کہ اس کی ازواجی زندگی اچھی نہیں ہے میں اس سے مطمیئن نہیں ہوں میری بیوی میری خواہشات کا خیال نہیں رکھتی ‘ اس کی باتیں سن کر میں حیران ہوگئی کہ آج ندیم کیسی باتیں کررہا ہے اس نے اپنی بات جاری رکھی اور کہنے لگا کہ میں آپ سے اس بارے میں کافی عرصہ سے بات کرنا چاہ رہا تھا لیکن موقع نہیں مل رہا تھا اس کی باتیں سن کر میں کنفیوز ہوگئی اور جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی میں نے اس سے کہا کہ ابھی بچوں کے آنے کا وقت ہوگیا ہے میں چلتی ہوں‘ پلیز آپ نہ جائیں مجھے اس حالت میں چھوڑ کر میں بہت پریشان ہوں آپ سے باتیں کرلوں گا تو فرسٹیشن تھوڑی کم ہوجائے گی جس پر میں نہ جانے کیوں رک گئی اب اس نے اپنی ازواجی زندگی کے بارے میں کھل کر باتیں شروع کردی جس پر مجھے عجیب سا محسوس ہونے لگا اچانک وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر میرے پاس صوفے پر آبیٹھااور اس نے میری کمر کے گرد اپنا بازو حائل کرکے میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئےے میرا پورا بدن کپکپا گیا میں نے اس کو پیچھے دھکیلا اور جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی ندیم نے مجھے مضبوطی سے پکڑ کر پھر سے بٹھا دیا میں اس سے خود کو چھڑانے کی کوشش کررہی تھی مگر ایسا نہیں کرپائی اس نے پھر سے میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ اور میری چھاتی پر اپنے ہاتھ رکھ دیئے اور انہیں دبانے لگا جس پر مجھے تھوڑا سا مزا آنے لگا اس وقت میں ڈبل مائنڈڈ ہوگئی کہ اب کیا کروں اس وقت میں ایسی جنسی کیفیت میں تھی کہ پہلے کبھی بھی اپنی زندگی میں ایسا محسوس نہیں کیا اور اس وقت مجھے یہ بھی خیال آیا کہ یہ غلط ہے اور اس سے میری ازواجی زندگی پربرا اثر ہوسکتا ہے میں نے ایک بار پھر ندیم کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی لیکن اس نے میری کوشش ناکام بنا دی اور میرے ہونٹوں کو بھوکوں کی طرح چوسنے لگا جس کو نظر انداز کردینا اب میرے بس کی بات نہیں رہی تھی ہمارے ہونٹ اس وقت اس حالت میں تھے کہ ایک ہی لگ رہے تھے تھوڑی دیر میں نے نا چاہتے ہوئے بھی اس کا ساتھ دینا شروع کردیا جس پر اس نے اپنی زبان میرے منہ میں ڈال دی پہلے میں نے تھوڑی سی مزاحمت کی لیکن پھر میں بھی اس کا گرم جوشی سے ساتھ دینے لگی اس وقت میں اپنے حواس کھو بیٹھی تھی اور مجھے کوئی ہوش نہیں تھا کہ میں کیا کررہی ہوں اس کی زبان کو چوستے چوستے میں نے اپنی زبان باہر نکالی اور اس کے منہ میں ڈال دی اس نے جیسے ہی میری زبان کو چوسنا شروع کیا میرے پورے جسم کو ایک کرنٹ سا لگا میرے اندر کی جنسی بھوک جاگ اٹھی میں اس وقت بھول گئی کہ میرا اور ندیم کا رشتہ کیا ہے اس کی جنسی طورپر طاقت ور کس نے مجھے سب کچھ بھلا دیا تھا اس نے اپنا منہ میرے منہ سے پیچھے کیا اور میری گردن پر کسنگ شروع کردی جس پر مجھے جنسی تجسس ہونے لگا ایک دم میرے ذہین میں خیال آیا کہ یہ سب کچھ غلط ہے میں نے اس کو پیچھے کیا اور کہا کہ ہم دونوں شادی شدہ ہیں یہ سب کچھ غلط ہے مگر اس نے میری بات ان سنی کردی اور پھر سے میری گردن پر کسنگ کرنے لگا میں نے اس کو روکنا چاہا مگر وہ نہ رکا اس نے مجھے چپ کرانے کے لئے ایک بار پھر میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے اور انہیں چوسنا شروع کردیا چند سیکنڈ کے بعد اس نے پھر سے میری گردن پر اپنے ہونٹ رکھ کر یہاں پر کسنگ شروع کردی میں نے ایک بار پھر اس کو منع کیا لیکن وہ باز نہ آیا اور اس کی جادوئی کسنگ نے مجھے مدہوش کردیا اس کے ہاتھ اس وقت میری چھاتی پر تھے اور وہ میرے مموں کو دبا رہا تھا جس پر میں نے دوبارہ سے اپنے حواس کھونا شروع کردیئے میں نے ایک بار پھر سے اس کو پیچھے کیا لیکن اس نے میری گردن کے گرد اپنا ایک بازو حائل کرکے مجھے اپنے مزید قریب کرلیا میں نے اس کو کہا کہ ندیم بھائی اب بہت ہوگیا ہمیں اب بس کردینا چاہئے مگر وہ باز نہ آیا وہ اس بارے میں بہت تجربہ کار تھا اور خواتین کی نفسیات کو جانتا تھا اس نے اچانک ہی مجھے تھوڑا سا پیچھے کیا اور ایک ہی لمحے میں میری قمیض اتار کر نیچے پھینک دی جب وہ میری قمیض اتارنے لگا تھا مجھے نہیں معلوم کہ میرے ہاتھ کیسے اوپر ہوگئے تھے اس نے میری قمیض اتار کر قریب ہی فرش پر پھینک دی اب میں صرف بریزئیر میں کھڑی تھی اس نے فوری طورپر میری بریزئیر کی ہک کھول کر اسے بھی میرے جسم سے علیحدہ کردیا اور اب میرے جسم کا اوپر والا حصہ بالکل ننگا تھا اور میں صرف شلوار پہنے کھڑی ہوئی تھی اس وقت میرے ممے جنسی طلب کی وجہ سے کافی ٹائٹ تھے اور نپلز سخت ہوچکے تھے اس نے اپنا چہرہ نیچے کیا اور ایک نپل کو اپنے منہ میں لے لیااس کے گرم گرم ہونٹ میرے نپل کو چوسنے لگے اس کے بعداس نے میرا دوسرا نپل بھی اپنے منہ میں لے لیا اور میرے مموں کو دباتے ہوئے ان کو چوسنے لگا میں اپنا کنٹرول مکمل طورپر کھو چکی تھی اور میری سوئی ہوئی جنسی بھوک جاگ گئی تھی میرے جسم میں طاقت ختم ہوتے ہوئے محسوس ہورہی تھی وہ میرے ممے چوستا چوستا زمین پر بیٹھ گیا اس نے اپنے دونوں ہاتھ میرے کولہوں پر رکھ لئے اور میری شلوار اتارنے کے لئے اس کو نیچے کیا شلوار میری گھٹنوں تک آچکی تھی اچانک میرے ہاتھ لاشعوری طورپر نیچے کو ہوگئے اور میں نے شلوار کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور اس کو اوپر کی طرف کرنے لگی اس نے میرے ہاتھ پیچھے کئے اور شلوار کو ٹخنوں تک کردیا اور اپنا منہ فوری طورپر میری پھدی کے اوپر فٹ کردیا اور اس کو چومنے لگا مجھے نہیں معلوم کہ مجھے اس وقت کیا ہوگیا تھا میں یقین نہیں کرپارہی تھی کہ ندیم میری پھدی کو چوم رہا ہے میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی ٹانگیں تھوڑی سی کھول لیں تاکہ اس کا منہ کی میری پھدی تک آسانی سے پہنچ ہوجائے اس وقت میں اس کے اس حملے کی وجہ سے بے بس ہوگئی تھی میں نے ایک بار پھر اس کو بے بسی سے کہا کہ پلیز بس کرو ہم دونوں شادی شدہ ہیں اور یہ ٹھیک نہیں ہے شادی شدہ لوگ تو یہ کام آسانی سے کرسکتے ہیں فکر نہ کرو تم اچھا محسوس کرو گی مگر میں اس کام پر اپنے آپ کو کبھی بھی معاف نہیں کر پا?ں گی کیونکہ میں اپنے شوہر کو دھوکہ دے رہی ہوں‘ میں نے جو اب دیا کیا تم یہ کہہ سکتی ہو کہ تمہارا شوہر بھی تمہارے ساتھ اتنا ہی وفادار ہے جتنا کہ تم اس کے ساتھ وفا کرنے کی کوشش کررہی ہو‘ اس نے مجھے کہا مگر مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے کہ وہ میرے ساتھ وفادار ہے یا نہیں مگر مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے ‘ اس نے مجھے میری بات پوری ہی نہیں کرنے دی اور پھر سے میری پھدی پر اپنا منہ ٹکا دیا اور اپنی زبان کو میری پھدی کے ہونٹوں پر پھیرنے لگا پھر اس نے اپنی انگلیوں سے میری پھدی کے ہونٹوں کو علیحدہ کیا اور میری پھدی کے اندر اپنی زبان ڈال دی اب میری پھدی کے اندر تک آگ لگ رہی تھی یہ بہت ہی مزے دار اور دلچسپ کام تھا جس کا مجھے پہلے کوئی تجربہ نہیں تھا انور نے کبھی بھی مجھے ایسا مزہ نہیں دیا تھا جتنا آج مجھے ندیم دے رہا تھا میرا پورا جسم آگ کی طرح گرم ہورہا تھا اور میں بے بس ہوچکی تھی میں نے ندیم کا سر پکڑ لیا اور اس کو اپنی پھدی کی طرف دبانے لگی میں ایسا کیوں کررہی تھی مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی یہ کام لاشعوری طورپر ہورہا تھا‘ میری پھدی نے پانی چھوڑنا شروع کردیا تھا اور میں اونچی آواز میں آہیں بھرنے لگی تھی تھوڑی دیربعد میری پھدی سے پانی کی ایک پچکاری نکلی اور میرا جسم ٹھنڈا ہوگیا ندیم اوپر کھڑا ہوا اس نے پاس پڑی میری قمیض پکڑی اور اس سے اپنا منہ صاف کرکے اپنا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ کر مجھے اسے اپنے منہ میں لینے کو کہا پہلے میں نے انکار کیا اور اس سے کہا کہ میں نے پہلے کبھی بھی ایسا نہیں کیا اور مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کو کیسے کرنا ہے مگر اس بہت اصرارکیا اور میں نے اس کو پکڑ لیا اس وقت میرے اندر ایک بار پھر جنگ شروع ہوگئی کہ میں شادی شدہ ہوں اور یہ سب کچھ غلط ہے مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے میں اس وقت اپنے خاوند کو اپنے بچوں کو دھوکہ دے رہی ہوں میں ابھی یہ باتیں سوچ ہی رہی تھی کہ ندیم بول پڑا ”کیا سوچ رہی ہوں اس کو منہ میں ڈالو اور چوسو“ میں نے کوئی جواب نہ دیا اور اس کا لن اپنے ہاتھ میں ہی پکڑے رکھا اس کا لن اس وقت بہت سخت تھا اور انور کے لن کی نسبت کافی زیادہ لمبا اور موٹا تھا میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ کسی انسان کا بھی اتنا لمبا لن ہوسکتا ہے اس کی لمبائی کم از کم آٹھ انچ کے قریب ہوگی اور موٹائی میں انور کے لن کی نسبت دوگنا تھا ”اس کو جلدی سے منہ میں لے لو“انور نے پھر مجھے کہا اس بار اس نے مجھے کہا تو میں نے اپنا منہ تھوڑا سا نیچے کیا اور اس کے لن کے قریب لا کر اپنے منہ کو جتنا کھول سکتی تھی اتنا کھول دیا اور اس کے لن کی ٹوپی کو اپنے منہ میں لے لیا ”اوہ ہ ہ ہ ہ‘ ونڈر فل ‘ آج تم نے میری خواہش پوری کردی “میں نے جیسے ہی اس کے لن کی ٹوپی اپنے منہ میں ڈالی اس نے خوشی کے مارے نعرہ لگانے والے انداز میں کہا میں نے اس کے لن کی ٹوپی کو تھوڑا سا منہ سے نکالا اور پھر اندر کیا میں اناڑیوں کی طرح اس کا چوسا لگا رہی تھی ”اس کو پورا اپنے میں لو“ندیم نے مجھے کہا جس پر میں نے اس کو اپنے منہ میں مزید اندر تک لے جانے کی کوشش کی لیکن اس کی ٹوپی سے ایک سینٹی میٹر بھی آگے نہ جاسکا یہ میری زندگی کا پہلا تجربہ تھا کہ میں کسی مرد کا لن اپنے منہ میں لے کر چوس رہی تھی اس سے پہلے میں نے کبھی نہیں کیا تھا بلکہ سوچا بھی نہیں تھا انور نے ایک دو بار مجھے ایسا کرنے کے لئے کہا لیکن میں نے انکار کردیا جس کے بعد اس نے بھی مجھے پھر نہیں کہا لیکن آج جانے کس وجہ سے میں نے اس کا لن چوسنا شروع کردیا تھا اس کی وجہ ابھی تک میری سمجھ میںنہیں آئی ‘اس کے لن کی ٹوپی کو میں نے اپنے منہ میں لیا ہوا تھا اور اس کو چوس رہی تھی کہ میرے ذہن میں خیال آیا کہ یہی لن ابھی تھوڑی دیر بعد میری پھدی میں جائے گا جس پر مجھے جھرجھری آگئی میرے ذہن میں خیال آرہا تھا کہ انور کو معلوم بھی نہیں ہوگا بلکہ اس کے ذہن وگمان میں بھی نہیں ہوگا کہ اس کی پیاری اور معصوم سی بیوی اس کے سب سے اچھے دوست سے چدنے والی ہے میں نے سوچا کہ ابھی بھی اس کو مزید کچھ کرنے سے منع کردوں لیکن میں ایسا نہ کرسکی اور اس کے لن کو چوستی رہی تھوڑی دیر کے بعد اس نے مجھے لن منہ سے نکالنے کا کہا جس پر میں نے اس کا لن منہ سے نکال دیا اس نے مجھے بازوسے پکڑا اور پھر مجھے قریب کرکے میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ چپکا دیئے چند سیکنڈ ایک ہی جگہ پر کھڑے کھڑے کسنگ کرنے کے بعد وہ مجھے کسنگ کرتے ہوئے ہی آہستہ آہستہ اپنے بیڈ روم میں لے گیا اور بیڈ پر لٹا دیا اور خود میری ٹانگوں کو تھوڑا سا کھول کر درمیان میں آبیٹھا مجھے معلوم تھا کہ وہ اب کیا کرنے والا ہے میرے دل اور دماغ میں ابھی تک کروں۔۔۔۔ نہ کروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا ساتھ دوں۔۔۔۔۔۔۔ اس کو منع کردوں یہیں پر رہوں۔۔۔۔۔۔ یہاں سے بھاگ جاں ۔۔۔۔۔یہ سب کچھ کرنے کے بعد انور کے سامنے کس منہ سے جاں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو معلوم ہی نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر کسی کو معلوم ہوگیا تو معاشرے میں اور اپنے بچوں کے سامنے میری کیا عزت رہ جائے گی ۔۔۔۔۔۔ان کو معلوم ہی نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔کی جنگ چل رہی تھی لیکن میں کوئی فیصلہ نہیں کرپارہی تھی کہ اسی اثناءمیں اس نے اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑا اور میری پھدی کے دہانے کے ساتھ ٹچ کیا جس پر میرے جسم میں بجلی کاایک 440 وولٹ سے زیادہ کا جھٹکا محسوس ہوا اس نے اپنے ہاتھ سے میری پھدی کے دونوں ہونٹ کھولے اور پھر اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر اس پر رگڑنے لگا میں اس کو منع کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں سوچ رہی تھی لیکن اس کو منع نہیں کررہی تھی مجھے میرے اندر کی ایک باوفا عورت اور بیوی یہ سب کچھ کرنے سے منع کررہی تھی جبکہ میری پھدی کہہ رہی تھی کہ اس کا لن لے کر مزے کی ایک نئی دنیا میں پہنچ جا میں نے ایک لمحے کے لئے سوچ بھی لیا کہ جو کچھ ہوگیا وہ ہوگیا اب بس مزید آگے کچھ نہ کروں لیکن دوسرے ہی لمحے میرے ذہن میں خیال آیا کہ جس حد تک ہوگیا ہے اس سے آگے کچھ ہویا نہ ہو دونوں برابر ہیں اس لئے بہتر ہے کہ فل ٹائم مزہ لے لوں مجھے یہ بھی محسوس ہورہا تھا کہ میری پھدی اس کا لن اپنے اندر سمو لینے کے لئے بے تاب ہے اور پانی پانی ہورہی ہے یہ پانی پانی شرم سے نہیں بلکہ مزے سے ہورہی تھی اسی لمحے ندیم نے اپنے لن کو میری پھدی پر رگڑنا بند کیا اور اپنا لن ایک بار پھر سے میری پھدی کے سرے پر فٹ کیا اور آہستہ سے اس کی ٹوپی میری پھدی کے اندر کردیا میر ی پھدی پانی سے کافی حد تک گیلی ہوچکی تھی لیکن اس کے لن کی موٹائی بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے مجھے ہلکی سی درد محسوس ہوئی اور میرے منہ سے ہلکی سی آہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔۔۔آہ ہ ہ کی آواز نکلی ندیم نے رک کر میری ٹانگیں اٹھائیں اور اوپر کرکے اپنے کندھوں پر رکھ لیں جبکہ اس کے لن کی ٹوپی ابھی تک میری پھدی کے اندر ہی تھی اس نے میری ٹانگیں اپنے کندھوں پررکھیں اور ہلکاسا زور لگا کر اپنے لن کو میری پھدی کے اندر مزید دھکیل دیا اس نے پھر اپنے لن کو تھوڑا سا باہر نکالا اور پھر آگے کو دھکیلا اور آہستہ آہستہ سے ایک دو بار ایسا کیامیں نے اپنے دونوں ہاتھ ندیم کی کمر کے گرد لپیٹ رکھے تھے اچانک ندیم نے رک کر اپنی طاقت کوجمع کیا اور ایک زور سے جھٹکا دیا اور میری پھدی کے اندر ایسا محسوس ہوا جیسا کہ کسی نے بارود کا دھماکہ کردیا ہو مجھے بہت زیادہ تکلیف محسوس ہوئی اور میں چلا اٹھی میں نے لاشعوری طورپر اپنے ناخن ندیم کی کمر میں گارڈ دیئے اس نے پھر آہستہ آہستہ سے اپنے لن کو اندر باہر کرنا شروع کردیا جس سے مجھے تکلیف سے زیادہ مزہ آرہا تھا میرا دل کررہا تھا کہ وہ ایسے ہی آہستہ آہستہ ساری عمر مجھے چودتا رہے مگر اس نے آہستہ آہستہ اپنی سپیڈ بڑھانا شروع کردی جس سے اس کا لن میری پھدی کی ان گہرائیوں تک جارہا تھا جہاں تک انور کا لن آج تک پہنچ نہیں سکاتھا میری پھدی کے ان علاقوں کو آج ندیم کے لن نے ہی دریافت کیا تھا میں بھی مزے کی ایک نئی دنیا میں پہنچ گئی تھی اور اس کے ہر جھٹکے کے ساتھ ہی نیچے سے ہل ہل کر اس کا ساتھ دے رہی تھی اس کے ٹٹے ہر جھٹکے کے ساتھ ہی میری گانڈ کے ساتھ ٹکراتے جس سے ایک عجیب قسم کا نشہ سا طاری ہوجاتا وہ اپنی سپیڈ کو مزید بڑھاتنا جارہا تھا اور اب وہ مجھے جانوروں کی طرح چود رہا تھا مجھے اس سے پہلے اس طرح کا کوئی تجربہ نہیں تھا انور مجھے بہت ہی سلجھے ہوئے انداز میں چودا کرتا تھا اور کبھی کبھی میں فلموں میں ایسی چدائی دیکھ کر سوچاکرتی تھی کہ ایسا کرنے والے انسان نہیں ہوتے جو عورت کو تکلیف دیتے ہیں لیکن آج میں اس طرح چد رہی تھی تو مجھے بہت مزہ آرہا تھا تھوڑی دیر بعد وہ شکل سے مجھے تھکا تھکا سا محسوس ہونے لگا تھا اب اس کے جھٹکوں میں اتنی طاقت بھی نہیں رہی تھی اور میری ٹانگیں بھی اس کے کندھوں پر پڑی پڑی تھکاوٹ کے باعث سن ہورہی تھیں چند منٹ کے بعد اس نے اپنے جھٹکے بند کئے اور سوالیہ انداز میں میری طرف دیکھنے لگا میں سمجھ گئی کہ اب وہ کیا چاہتا ہے میں نے اس کی گردن کے گرد اپنے ہاتھ ڈال لئے اور اس کو اپنے ساتھ چمٹا لیا چند سیکنڈ تک اس کے ہونٹ چوستی رہی اور پھر اس کو کہا کہ اب تم نیچے آجااس نے اپنا لن میری پھدی سے نکالا اور پھر بیڈ پر آکر لیٹ گیا اور میں اس کے اوپر چڑھ گئی میں نے اس کے لن کو اپنے ہاتھ سے پکڑکر اپنی پھدی کے سرے پر فٹ کیا اور ایک ہی جھٹکے سے اس کے اوپر بیٹھ گئی اور اس کا پورا لن میری پھدی کے اندر تک چلا گیا اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس نے میرے اندر کسی چیز کو پھاڑ ڈالا ہے حالانکہ جب وہ میرے اوپر تھا تو بھی وہ اپنے پورے لن کو میری پھدی کے اندر ڈال رہا تھا لیکن اس وقت ایسا محسوس نہیں ہوا جیسا کہ اب محسوس ہوا تھا میں فوری طورپر اوپر کو اٹھ گئی میں ہلکا ہلکا سا نیچے کو ہورہی تھی کہ ندیم نے میرے چوتڑوں کو ہاتھوں میں پکڑکر مجھے اوپر نیچے کرنے لگا اس کا لن ابھی پورا میری پھدی کے اندر نہیں جاتا تھا کہ میں اوپر کو اٹھ جاتی تھی پھر نیچے کو ہوتی اور پورالن اپنے اندر جانے سے پہلے ہی اوپر کو ہوجاتی تھوڑی دیر کے بعد میں اس کے لن کو پوری طرح سے آرام کے ساتھ اپنے اندر سمو لینے کے قابل ہوگئی اور ساتھ ہی میں نے جمپنگ کی سپیڈ بڑھا لی جس کے باعث میرے ممے بھی اوپر نیچے کو ہورہے تھے ندیم نے اپنے دونوں ہاتھ میرے چوتڑوں سے ہٹا کر میرے ممے پکڑ لیے اور ان کو دبانے لگا تھوڑی دیر بعد میں بہت تھک گئی جس پر اس نے مجھے گھوڑی بنا لیا اور میری پشت پر آکر کھڑا ہوگیا اور میری گانڈ کی طرف سے اپنا لن میری پھدی میں داخل کرکے جھٹکے دینے لگا یہ بھی ایک عجیب سا مزہ تھا وہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ مجھے چود رہا تھا اور میں اس کے ہر جھٹکے کو خوشی سے برداشت کررہی تھی کیوں کہ وہ مجھے میری زندگی کا سب سے زیادہ مزہ دے رہا تھا ابمیں کافی حد تک تھک چکی تھی میں اس کی چدائی کے دوران دو بار فارغ ہوچکی تھی اب اس نے اپنی سپیڈ میں اضافہ کردیا اور اچانک ایک دم رک گیا پھر ایک لمحے کے بعد اس نے مجھے ایک زور دار جھٹکا دیا اور اپنے لن کو پورا جڑ تک میری پھدی کے اندر کرکے میرے ساتھ چمٹ گیا اور اس کے لن سے مادہ میری پھدی کے اندر نکلنے لگا ساتھ ہی میں بھی تیسری بار فارغ ہونے لگی تھی تھوڑی دیر بعد ہم دونوں بیڈ کے اوپر لیٹ گئے میںنے اس کو دیوانہ وار چومنا شروع کردیا کیوں کہ اس نے مجھے وہ مزہ دیا تھا جس سے میں آج تک آشنا نہیں ہوسکی تھی اچانک اس نے ایک دم زور زور سے قہقہے لگانا شروع کردیئے کیا ہوا ہنس کیوں رہے ہو‘ میں نے اس سے پوچھا میں تم کو کئی مہینوںسے چودنے کے خواب دیکھ رہا تھا ‘ اس نے کہا مگر آج سے پہلے تم نے مجھے کیوں نہیں چودا مجھے اتنی دیر بعد کیوں چودا‘ میں نے اس کو جواب دیا مجھے معلوم تھا کہ تم اس طرح کی عورت نہیں ہوکہ تم کو آسانی کے ساتھ چودا جا سکے جس پر میں نے کئی ماہ تک سوچ بچار کے بعد آج موقع ملنے پر ٹرائی کی اور پہلی ٹرائی میں کام یاب ہوگیا مجھے امید نہیں تھی کہ تم اتنی جلدی تیار ہوجا گی میں نے اس کام کے بارے میں سوچ رکھا تھا کہ مجھے اس کام کے لئے کم از کم چھ ماہ درکا ر ہوں گے اور میں چھ ماہ محنت کرنے پر بھی تیار تھا‘ اس نے ہنستے ہوئے کہا تھوڑی دیر تک ہم لوگ باتیں کرتے رہے میں اٹھی اور کپڑے پہننے لگی جس میں اس نے میری مدد کی اور پھرمیں گھر چلی گئی۔ہارڈ فکنگ کی وجہ سے مجھ سے اس وقت چلا بھی نہیں جارہا تھا میں بمشکل اپنے گھر پہنچی اور اپنے بیڈ پر جالیٹی اس وقت مجھے پھر سوچوں نے گھیر لیا کہ میں نے ٹھیک کیا ہے یا غلط لیکن میں نے اس سوچوں کو جھٹک دیا اور سو گئی اور مسلسل چار گھنٹے سونے کے بعد شام کے وقت اس وقت اٹھی جب انور کا فون آیا اور اس نے بتایا کہ وہ رات کو دس بجے کے قریب گھر پہنچ جائے گا رات کو انور نے سیکس کی خواہش کا اظہارکیالیکن میں نے منع کردیا کیوں اب مجھ میں مزید کچھ کرنے کی ہمت نہیں تھی ندیم کی چدائی نے ہی میرا کام تمام کردیا تھا آج یہ پہلا موقع تھا کہ انور نے مجھے سیکس کے لئے کہا ہو اور میں نے انکار کیا ہواس کے بعد ندیم مجھ سے کئی بار ملا اور پھر سے چدائی پروگرام کرنے کا کہا لیکن میں نے اس کو صاف صاف کہہ دیا کہ وہ موقع پہلا اور آخری تھا اس کے بعد میں ایسا نہیں کروں گی وہ ابھی تک جب بھی ملتا ہے ہمیشہ پھر وہی بات کہتا ہے لیکن میں ہمیشہ انکار کردیتی ہوں لیکن وہ زبردستی میرے ہونٹوں کی کس کرلیتا ہے میں اس پر بھی کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ یہ اپنے شوہر کے ساتھ بددیانتی کررہی ہوں وہ مجھے ہمیشہ کہتا ہے کہ تم نے مجھے چدائی کے حق سے محروم کرکے صرف کسنگ کے حق تک محدود کردیا ہے


 

Comments

Popular Posts